The دعا تک دین کو بدلتی ہے Diaries

یا اللہ! تمام معاملات کا انجام ہمارے لیے بہتر فرما، اور ہمیں دنیاوی رسوائی اور اخروی عذاب سے پناہ عطا فرما۔

 ہمارے پروردگار ہمیں دنیا و آخرت میں بھلائی عطا فرما، اور ہمیں آگ کے عذاب سے بچا۔

آزمائش کبھی کبھی بندے سے اللہ تعالیٰ کی محبت کی نشانی ہوا کرتی ہے۔ اللہ بندے کو آزماتا اس لیے ہے کہ اس کا درجہ بلند ہو، اس کا مرتبہ اونچا ہو اور اس کے گناہ بخش دیے check here جائیں۔

سورہ فاتحہ کے بعد قرآن کی سب سے پہلی سورت کی اس عظیم آیت میں اللہ تعالی اپنی عبادت کا حکم دے رہا...

جامعہ کے فتاویٰ اور دیگر مواد کو کسی دوسرے فورم پر نشر کرنے کی اجازت نہیں

اگر کوئی شخص ایسا نہیں ہے تو اس کے لئے گمراہی لکھ دیتا ہے، ایسا اس شخص کے لئے ہوتا ہے جس کو اسلام کی دعوت دی جائے تو اس کا سینہ تنگ ہو کر آسمان کی جانب چڑھنے لگتا ہے، تو اللہ تعالی کی حکمت ایسے شخص کے ہدایت یافتہ ہونے کو مسترد کرتی ہے، الّا کہ اللہ تعالی اس کے دل میں نیا ولولہ پیدا فرما دے اور اس کے ارادوں کو صحیح سمت دے دے، اللہ تعالی تو ہر چیز پر قادر ہے، لیکن حکمت الہی کا تقاضا ہے کہ اسباب اور مسبب دونوں کا آپس میں گٹھ جوڑ ہے، دونوں الگ الگ نہیں ہو سکتے۔" اختصار کے ساتھ اقتباس مکمل ہوا۔

الخلیل میں فلسطینی مجاہدین کی کامیاب مزاحمتی کاروائی، تین صیہونی فوجی ہلاک

تم سب گمراہ ہو سوائے اس کے جسے میں ہدایت سے نواز دوں، پس تم مجھ ہی سے ہدایت مانگو میں تمہیں ہدایت دوں گا

دعا کی شرائط میں سے سب سے پہلی شرط یہ ہے کہ انسان ایمان رکھتا ہو کہ خداوند متعال کی ذات تمام موجودات پر قدرت رکھتی ہے اور یہ ایمان رکھتا ہو کہ خداوند متعال کے لیے کوئی چیز بھی ناممکن نہیں ہے. میں جس چیز (جائز) کا بھی سوال کروں خدا کی ذات اسے عطا کر سکتی ہے۔ وہ اس چیز کو عطا کرنے میں کسی کا محتاج نہیں ہے۔ خدا کے علاوہ کسی پر، کسی قسم کی امید نہ رکھے۔ اس کی تمام امید خداوند کی ذات اقدس ہو۔ خداوند متعال نے خود قرآن میں ارشاد فرمایا: "و من یتوکل علی اللّه فهو حسبه" ترجمہ: جو بھی اپنے امور میں خدا پر توکل کرے گا بس خدا اس کے لیے کافی ہے۔ علی بن سوید سائی کہتا ہے، اس آیت کے متعلق امام رضا علیہ السلام سے کسی نے سوال کیا۔ امام علیہ السلام نے فرمایا: "و من یتوکل علی الله فهو حسبه" يعني: "التوکل علی الله درجات: منها أن تتوکل علی الله فی أمورک کلها فما فعل بک کنت عنه راضیا تعلم أنه لا یألوک خیرا و فضلا".

ایم ڈبلیو ایم کوئٹہ کے رہنماء ارباب لیاقت علی ہزارہ سے تحریک تحفظ آئین پاکستان سے متعلق خصوصی گفتگو

خوب سمجھ لیجئے کہ تقدیر کی دو قسمیں ہیں ایک تو " مبرم" اور دوسری " معلق" تقدیر مبرم تو حق تعالیٰ کا اٹل فیصلہ ہوتا ہے جو چیز پیش آنے والی ہوتی ہے اس میں کچھ بھی تغیر و تبدل ممکن نہیں ہے مگر تقدیر معلق میں بعض اسباب کی بنا پر تغیر و تبدل بھی ہوتا ہے۔ لہٰذا یہاں حدیث میں جس تقدیر کے بارہ میں کہا ہے کہ وہ دعا سے بدل جاتی ہے وہ تقدیر معلق ہی ہے یہاں تقدیر مبرم مراد نہیں ہے۔

اور برائی کے اسباب اپنانے والے کو زندگی میں اور مرنے کے بعد بھی برا انجام ہی ملے گا، فرمانِ باری تعالی ہے:

تمام تعریفیں اللہ کے لئے ہیں جو آسمان و زمین کا پروردگار ہے، وہ دعائیں سننے، نعمتیں اور رحمتیں عطا کرنے والا ہے ، وہی مشکل کشائی فرماتا ہے، میں اپنے رب کی تعریف اور شکر گزاری کرتے ہوئے اسی کی جانب رجوع کرتا ہوں اور گناہوں کی معافی چاہتا ہوں، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ یکتا ہے، وہی عزت و کبریائی والا ہے، میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی جناب محمد ﷺ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں ، آپ کو کامل اور روشن شریعت دے کر بھیجا گیا، یا اللہ!

ترجمہ: ’’صرف دعا ہی قضا کو ٹالتی ہے اور صرف نیکی ہی عمر میں اضافہ کرتی ہے۔‘‘

1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15

Comments on “The دعا تک دین کو بدلتی ہے Diaries”

Leave a Reply

Gravatar